دعا تک دین کو بدلتی ہے Fundamentals Explained

آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین

تمام تعریفیں  اللہ کیلیے ہیں وہی رحمن و رحیم  اور عزیز و حکیم ہے، اس کے اچھے نام اور اعلی صفات ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے ، وہی بلند و بالا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے  بندے  اور چنیدہ رسول ہیں، یا اللہ!

اگر اللہ کسی کی حفاظت کرنا چاہتا ہے تو اس کے آگے اور پیچھے فرشتے مقرر کر دیتا ہے۔ جسے اللہ نے محفوظ رکھا ہو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اگر اللہ نے اس کے راستے میں رکاوٹ لکھ دی ہے تو اسے اللہ کے سوا کوئی حل نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ، اللہ لوگوں کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتی جب تک کہ وہ اسے پہلے اپنے اندر بدلنے کی کوشش نہ کریں۔

بارش کی بوندا باندی کو دیکھ کر یہ کہنا کہ "فرشتوں نے تھوکا ہے"

اسی طرح یہ بھی دعا کی شرط ہے کہ: گناہ اور قطع رحمی کی دعا نہ کی جائے اور دعا میں حد سے تجاوز نہ ہو ۔ دعا کی قبولیت کے اسباب میں  یہ شامل ہے کہ اللہ تعالی کے اسما و صفات کے ذریعے اللہ تعالی کی خوب حمد و ثنا بیان کی جائے ، اور نبی click here ﷺ پر درود و سلام پڑھیں، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا:

آپ کہہ دیں: میں صرف اپنے رب کو ہی پکارتا ہوں اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا۔

حقیقت یہ ہے کہ انسان کو قوت ارادی میں مکمل آزادی اور اختیار حاصل ہے، نیز ہدایت کا معاملہ رزق کے معاملے سے زیادہ پیچیدہ بھی نہیں ، کیونکہ اب سب انسانوں کو معلوم ہے کہ اس کا رزق لکھ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود رزق کے لئے تگ و دو کرتا ہے، اس کے لئے اندرون اور بیرون ملک تک، دائیں اور بائیں ہر جانب کوشش کرتا ہے، یہ نہیں کرتا کہ گھر بیٹھا رہے اور کہے کہ اللہ تعالی نے میرے لیے رزق لکھ دیا ہے تو وہ رزق اب مجھ تک پہنچ کر رہے گا، بلکہ حصول رزق کے اسباب اپناتا ہے کہ رزق کا معاملہ بھی انسان کی کاوش اور محنت سے منسلک ہے، جیسے کہ یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے۔

اللہ تعالی نے کسی سے بھی دعا مانگنے کی اجازت نہیں دی چاہے وہ کتنا ہی مقرب کیوں نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، اور ہماری دھرتی کی حفاظت فرما، یا رب العالمین!

 کیونکہ بندے کو تقدیر کا علم ہی اس وقت ہوتا ہے جب تقدیر میں لکھا ہوا کام رونما ہو جاتا ہے، تو بندے کو اس بات کا علم ہی نہیں ہوتا  کہ کیا اللہ تعالی نے اس کے لئے گمراہ ہونا لکھ دیا ہے یا ہدایت یافتہ ہونا لکھا ہے؟

ایسے شخص کی سعادت مندی اور کامیابی کے کیا ہی کہنے جس کا دل اللہ تعالی کی جانب متوجہ رہتا ہے، اسی سے دعائیں مانگتا ہے اور امید رکھتا ہے، اسی پر توکل و بھروسا رکھتا ہے اور مدد مانگتا ہے۔

 وَنُودُوا أَنْ تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ

الْقَضَاءُ: هُوَ الْأَمْرُ الْمُقَدَّرُ، وَتَأْوِيلُ الْحَدِيثِ أَنَّهُ أَرَادَ بِالْقَضَاءِ مَا يَخَافُهُ الْعَبْدُ مِنْ نُزُولِ الْمَكْرُوهِ بِهِ وَيَتَوَقَّاهُ، فَإِذَا وُفِّقَ لِلدُّعَاءِ دَفَعَهُ اللَّهُ عَنْهُ، فَتَسْمِيَتُهُ قَضَاءً مَجَازٌ عَلَى حَسَبِ مَا يَعْتَقِدُهُ الْمُتَوَقِّي عَنْهُ، يُوَضِّحُهُ قَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي الرَّقْيِ: هُوَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ، وَقَدْ أَمَرَ بِالتَّدَاوِي وَالدُّعَاءِ مَعَ أَنَّ الْمَقْدُورَ كَائِنٌ لِخَفَائِهِ عَلَى النَّاسِ وُجُودًا وَعَدَمًا، وَلَمَّا بَلَغَ عُمَرُ الشَّامَ وَقِيلَ لَهُ: إِنَّ بِهَا طَاعُونًا رَجَعَ، فَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ أَتَفِرُّ مِنَ الْقَضَاءِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ!

سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس کی مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمى شيخ بشیر نجفی سے ملاقات

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *